نئی دہلی27ا کتوبر(ایس او نیوز؍پریس ریلیز) پریس کلب آف انڈیا میں آج مسلم خواتین کی پریس کانفرنس ہوئی جس میں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت اورچندخواتین کے ذریعہ اسلام کوبدنام کرنے کی کوششوں کی سخت مذمت کی گئی اورخواتین نے اس موقف کوواضح کیاکہ مسلم خواتین ہرگزمسلم پرسنل لاء میں تبدیلی نہیں چاہتیں،وہ اسلامی قانون نکاح وطلاق سے پوری طرح مطمئن ہیں۔انہوں نے میڈیاکے ذریعہ چندخواتین کوسامنے لاکرپیروپیگنڈہ کوبھی غلط بتایااورکہاکہ تاثردینے کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلم خواتین ہی خودمسلم پرسنل لاء کی مخالف ہیں جوسراسرغلط ہے۔ہم خواتین عہدبندہیں کہ شریعت میں کسی طرح کی کوئی مداخلت قابل قبول نہیں ہوگی۔
پریس کانفرنس کوخطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم مسلم خواتین مختلف جماعتوں اور مسلکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بہت ہی کھلے لفظوں میں اظہار کرتے ہیں کہ ہم مسلم پرسنل لا میں پوری طرح محفوظ ہیں وہ لوگ جو مسلم خواتین سے زبانی ہمدردی ظاہر کرتے ہیں ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ مساوات اور یونیفارم سول کوڈکے نام پرنیشنل اور انٹرنیشنل سازش کا شکار ہو رہے ہیں ۔اور یہ حکومت وقت کا جو ایجنڈا ہے جو ان کے مینیفیسٹو میں مذکور ہے ۔ ہم پورے اعتماد کے ساتھ دنیا کے یہ بتلانا چاہ رہے ہیں کہ جو حقوق اور جو حفاظت شریعت اسلامی نے ہم کو دی ہے وہ کسی اور مذہب نے نہیں دی ہے لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا تھا اور مسلمان شرعی قانون (جو کہ قرآن حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ اور خلفائے راشدین) کے رہنما اصولوں پر مبنی ہے لوگوں کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ طلاق اور ایک سے زائد شادیوں کا تناسب مسلمانوں میں سب سے کم ہے، لیکن پروپیگنڈہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان مردوں کے پاس طلاق کے علاوہ اور کوئی دوسرا کام نہیں ہے وہ لوگ جو حقوق نسواں کی بات کرتے ہیں ان کو جواب دینا چاہئے کہ:
۱۔ پارلیمانی نظام میں عورتوں کا پچاس فیصد حصہ کیوں نہیں ہے؟
۲۔ عدلیہ میں عورتیں کہاں نظر آتیں ہیں
۳۔ ہندوستان کے مشہور تعلیمی ادارے، ریسرچ سینٹر عورتوں کی نمائندگی سے محروم کیوں ہیں؟
۴۔ ملٹری (فوج) میں عورتیں کہاں کھڑی ہیں؟
۵۔ اختلافات کی بنیاد پر اگر شادی کامیاب نہیں ہوتی ہے تو عورتوں کو طلاق لینے میں سالہا سال کیوں لگ جاتے ہیں
دوسری طرف ہم یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ:
۱۔ شادی اسلام میں ایک معاہدہ ہے اور عورت کو پورا حق ہے کہ اس معاہدہ میں خاطر خواہ تبدیلی کرنا اور معاہدہ کو نامنظور کرنا بھی شامل ہے۔
۲۔ حق وراثت کے تعلق سے مسلمانوں میں مرد اور عورت کے درمیان کسی طرح کا امتیاز نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ قرآنی تعلیمات کے خلاف ہے ۔
۳۔ رحمِ مادر میں بچیوں کا قتل ‘ حمل ضائع کرنا اسی طرح تعدد ازواج کا تناسب مسلمانوں میں بہت کم ہے۔
۴۔ مسلم خواتین قانون شریعت (نکاح، طلاق، خلع،فسخ،وراثت ) میں پوری طرح مطمئن و متفق ہیں اسمیں کسی طرح کی تبدیلی نہیں چاہتے۔
ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ جو گروپ طلاق کے ذریعہ یونیفارم سول کوڈ کو لانا چاہتا ہے وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔یہ بات حیرت انگیز ہے کہ سنگھ پریوار کئی زبانوں میں بول رہا ہے، آر ایس ایس کا کہنا ہے کہ طلاق مسلمانوں کا اندرونی معاملہ ہے اور ان ہی کے ہم مزاج وزیراعظم مسلمانوں کی اٹھارہ کروڑ آبادی کو نظرانداز کرتے ہوئے جو اپنے ملک و قانون سے محبت کرتے ہیں ان کی رائے جانے بغیر شرعی معاملہ میں مداخلت کے لئے عدالت میں حلف نامہ داخل کرتے ہیں، ہم پھر ایک بار اصرار کرتے ہیں کہ ہم مسلم خواتین اس طرح کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور مسلمان خواتین اپنے مسلم پرسنل لا میں بالکل محفوظ ہیں۔ طلاق ثلاثہ کا مسئلہ اٹھانے کا بنیادی مقصد اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں سے انکے وہ حقوق چھین لینا ہے، جو دستور میں دئیے گئے ہیں۔ ہندوستان کی 10 کروڑ مسلمان خواتین پورے طورپر مسلم پرسنل لا کی حمایت کرتی ہیں اور کسی بھی قسم کی دخل انداز ی کی مخالفت کرتی ہیں۔ لا کمیشن کی جانب سے جو سوالنامہ جاری کیا گیا ہے اس کا مقصد ہر طرح سے یونیفارم سول کوڈ کو لاگو کرنا معلوم ہوتا ہے۔ ہم تمام خواتین اس سوالنامہ کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور ہم مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں۔ مودی حکومت اور ان کے وزرا اکثرgender justice اوراس قسم کے الفاظ استعمال کررہے ہیں ۔انکو معلوم ہوناچاہئے کہ عورتوں کیساتھ اسلام میں انصاف کیا گیا ہے۔97% سے زیادہ مسلم خواتین کامیاب ازدواجی زندگی گذاررہی ہیں اور وہ اپنے مسلم پرسنل لا سے مطمئن و خوش ہیں۔ اسلام میں شادی ایک معاہدہ اور بونڈہے۔جس سے دونوں فریقین امن و خوشحالی کی زندگی گذارتے ہیں۔ تنازعہ کی صورت میں علیحدگی کا دروازہ اسلام نے کھلا رکھا ہے۔ اور اگر تنازعہ کا حل کس طرح بھی ممکن نہ ہو، تو پھرطلاق یا خلع کے ذریعہ فریقین علیحدگی اختیارکرسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اسلام میں طلاق کا قانون بہت آسان ہے۔ دوسرے مذاہب میں طلاق لینے کیلئے کورٹ جانا پڑتا ہے اور چھ تاآٹھ سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔مسلمانوں اور غیر مسلموں میں طلاق کے تناسب کو بتلاتے ہوئے انھوں نے کہااگرمطلقہ مسلمان کی تعداد دو لاکھ ہے تو ہندوؤں میں مطلقہ کی تعداد 10 لاکھ ہے۔
بہت ہی توہین آمیز بات ہوگی کہ طلاق پر پابندی لگاکر عورت کو اسی شوہر کے ساتھ زبردستی رہنے پر مجبور کیا جائے جس نے اسے طلاق دے دی جبکہ وہ اس عورت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ طلاق چاہے ایک ہو یا دو یا تین اسلام میں اسکو ایک ناپسندیدہ عمل قرار دیا گیا۔ مسلم پرسنل لا مرد و عورت دونوں کیلئے ایک خوشگوار زندگی گذارنے کیلئے ایک متوازن طرز زندگی ہے۔قرآن کریم میں صاف حکم ہے کہ عورتوں کے ساتھ انصاف کرو، اور یہی تقویٰ ہے۔ تعداد ازدواج کی اگر اسلام میں اجازت ہے تو انصاف کی کڑی شرطوں کے ساتھ ہے۔ ورنہ نہیں ،صرف ایک ہی بیوی پر اکتفا کرنے کے احکام ہیں۔حکومت کے ریکارڈ کے مطابق مسلمانوں میں دوسری شادی کی شرح 3.5% ہے تو ہندوؤں میں 6.8% ہے۔ ایک مسلمان عورت دوسری بیوی کے درجہ میں بھی تمام سماجی، مذہبی حقوق کی حقدار ہے۔ دوسری بیوی کا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔اگر مسئلہ ہے تو ان مذاہب میں ہے جہاں دوسری شادی کی اجازت نہیں ہے اور وہ عورتیں صرف keeps (رکھیل )کا درجہ رکھتی ہیں۔اسلامی معاشرہ بدنام کیا جارہا ہے۔
کیا حکومت کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان ۱۰ لاکھ مسلمان عورتوں کا خیال کرے؟ جہیز کے سلسلے میں اموات کی تعداد 26 ہزار سالانہ ہے۔ ہر پندرہ منٹ میں ایک ریپ کا کیس واقع ہوتا ہے۔ مادر رحم میں بچوں کو قتل کے معاملہ ہر سات سکنڈ میں واقع ہوتے ہیں۔41% ہندوستانی عورتیں گھریلو تشدد کی شکار ہیں۔ 15 ملین بچیاں 18 سال کی عمر سے پہلے ہی بیاہ دی جاتی ہیں۔ کیونکہ والدین کو اپنی بچیوں کی عزت بچانا ہوتا ہے۔کئی ایسے رسوم و رواج ہیں جن سے انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ حکومت کی توجہ ہندوستان کے حقیقی مسائل کی طرف ہونی چاہئے کہ وہ بچیوں کا مادر رحم میں قتل ، بچیوں کا بچپن میں ہی قتل Female Infenticide ، جہیز کا رواج ،جوڑے گھوڑے کی لعنت ،تعلیم کی کمی، جہالت، عورتوں کی حفاظت پر غور کرے۔مسلمان عورتیں قابل ستائش ہیں کہ وہ مسلم پرسنل لا کے تحفظ کیلئے پورے ملک میں بڑی بھاری تعداد میں جمع ہورہی ہیں۔ اور جلسے و جلوس سے اپنی تائید و حمایت کا اظہار جمہوری طریقے کو اپناتے ہوئے کررہی ہیں۔ہم خواتین مسلم پرسنل لا بورڈ کی آواز پر دستخطی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور ساتھ ہی ہم ہندو بہنوں سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ میڈیا کے غلط بہکاوے میں ہرگز نہ آئیں اور مسلمان بہنوں سے اپیل ہے کہ وہ پرامن ،جمہوری طریقے سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا ساتھ دیں۔ اور جب جب بورڈ آپ کو آواز دے اس آواز پر لبیک کہیں۔